Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر22

عدیل کے لیے۔۔ عنقا کا زبردست قسم کا جوابی حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔۔ تبھی وہ حیرانی سے اس کا منہ تک رہا تھا۔
عنقا کے تحکم بھرے لہجے کا کمال تھا۔۔ کہ فوراً۔۔ بے اختیار ہی اس نے کار ان لاک کی، عنقا فوراً ہی کار سے باہر نکلی اور اس کا دروازہ زور سے مارتے ہوۓ آگے بڑھی۔
"ایڈیٹ۔۔۔!!!" اس نے جل کر منہ ہی منہ میں کہا۔
اسے رہ رہ کر عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔!! اگر وہ اسے سچ میں روکنا چاہتا تھا تو کوئی عزت اور تمیز والے طریقے منا سکتا تھا ناں۔۔ عنقا بھی تھوڑے تردد کے بعد مان جاتی۔۔ لیکن وہ بھلا ایسا کیسے کر سکتا تھا۔۔!! اگر ایسا ہو جاتا تو پھر وہ اپنے آپ کو ایڈیٹ کیسے ثابت کرتا۔۔!! 
اس کے جاتے نکلتے ہی۔۔!! عدیل نے بھی کار اسٹارٹ کی۔۔!! اور تھوڑا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر، وہاں سے رفو چکر ہوا۔۔!! اسے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔ کہ عنقا آخر کیسے۔۔ اس قدر حاضر جواب ہو سکتی ہے۔۔!! وہ سارے راستے اس کی باتیں سوچتا رہا۔۔!! بلکہ وہ اس کی باتوں کے پیچھے چھپے مطلب بھی ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔!!
×××
عدیل کے وہاں سے جانے کے بعد، عنقا نے گھر کی بیل کے بٹن پر انگلی رکھی۔۔!! دروازہ کھولنے کے لیے اس کی امی آئی تھیں۔۔!! اسے وہاں دیکھ کر۔۔ انہیں خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔ انہوں نے دروازے پر ہی بہت گرمجوشی سے اسے  گلے لگایا۔۔ اور اس کے بعد "آؤ بیٹا ۔۔ اندر آؤ" کہتے ہوئے، محبت سے اندر آنے کا بولا۔
اس کے اندر آنے کے بعد انہوں نے عدیل کو بھی اندر بلانے کے لیے، جھانک کر باہر دیکھا تو وہاں وہ موجود نہیں تھا۔۔!! ظاہر ہے۔۔!! وہ وہاں کیسے موجود ہو سکتا تھا۔۔وہ تو پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔۔!! 
اسے باہر نہ پا کر۔۔ وہ واپس مڑیں۔۔اندر آئیں اور عنقا پر اپنی مشکوک  نظروں کا گھیرا تنگ کیا۔۔!!
"عدیل کہاں ہے۔۔!!" انہوں نے پوچھا۔
"وہ مجھے چھوڑنے آئے تھے۔۔ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔۔!!" اس نے لاپروائی سے جواب دیا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔!! بیٹا کم سے کم اندر تو بلا لیتیں۔۔!!" انہوں نے ، ملامتی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔
"امی۔۔ وہ جلدی میں تھے۔۔ اس لیے نہیں رکے۔۔!! اور آپ۔۔آپ کیسی ماں ہیں۔۔!! بیٹی اتنے دنوں بعد گھر آئی ہے۔۔ اسے پوچھنے کی بجائے۔۔!! اپنے اس گندے سے داماد کے متعلق سوال جواب کیے جارہی ہیں۔۔!! ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔۔!!" وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی۔
"گندا سا داماد۔۔۔!!!" انہوں نے تعجب سے عنقا کی طرف دیکھا۔
"مطلب لڑائی ہوئی ہے تم دونوں کی۔۔۔۔!! بتاؤ۔۔!! کیا کیا ہے تم نے۔۔!!" انہوں نے بھرپور تفتیشی انداز اپناتے ہوئے سوال کیا۔
"توبہ ہے امی۔۔!! یوں نہیں کہ بچی یونیورسٹی سے تھکی ہاری، اپنا پیپر دے کر آئی ہے۔۔!! اوپر سے،اتنے دنوں بعد میکے کا چکر لگایا ہے۔۔!! اس کی کوئی آؤ بھگت کر لوں۔۔!! نہیں بس۔۔ آپ کو تو اپنے داماد کی پڑی ہے۔۔!! آپ کو میری کوئی پروا نہیں۔۔!! آپ اور ابو تو چاہتے ہی نہیں۔۔ کہ میں سکون سے رہوں۔۔ اس لیے۔۔ بار بار۔۔ اپنے گندے سے داماد کے پاس بھیج دیتے ہیں۔۔!! اب پلیز۔۔ جب تک میں خود یہاں سے نہیں جاتی تب تک۔۔۔ مجھے بھیجنے کی بالکل کوئی کوشش مت کیجئے گا۔۔!! اور۔ میری پیاری امی۔۔ پلیز کچھ کھانے کو دے دیں۔۔۔!! تب تک میں فریش ہو کر آتی ہوں۔۔!! اوکے۔۔!!" وہ آخری بات بہت لاڈ سے کہتی وہاں سے چلی گئی۔۔
وہ فریش ہو کر آئی تو اسے ٹرے میں موجود گرما گرم کھانا، اس کے بیڈ پر پڑا ملا، وہ ندیدوں کی طرح، جلدی جلدی بیڈ پر آکر ، آلتی پالتی مار کر بیٹھی، اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے للچائی ہوئی نظروں سے، اپنے پسندیدہ آلو گوشت کے شوربے اور تڑکے والے چاولوں کو دیکھا اور بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی۔ اس کی امی پانی لینے گئی تھیں۔۔ وہ پانی لے کر آئیں تو عنقا کو کھانے پر ٹوٹتا دیکھ کر انہیں شدید تاؤ آیا،
"بیٹا کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔؟؟؟یہ پاگلوں کی طرح، جنگلیوں کی طرح کیوں کھا رہی ہو۔۔۔؟؟؟" اس کی امی نے غصے سے سوال کیا۔
امی۔۔۔ وہ مجھے بہت بھوک۔۔" وہ کہتے کہتے رکی تھی، اس نے اپنا منہ اتنا بھر رکھا تھا کہ چاول اس کے منہ سے باہر نکل رہے تھے، "اف۔۔۔!! مسٹر جنگلی نے مجھے بھی جنگلی بنادیا۔۔!!" اس نے رک کر سوچا۔۔
"کیا بھوک۔۔۔!!" اسکی امی نے اس کے ادھورے جملے کی بابت، ذرا غصے میں پوچھا۔
"وہ۔۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی۔۔" اس نے نوالہ نگل کر ذرا خفت سے جواب دیا، 
"بیٹا بھوک لگنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان، انسانوں کی طرح نہ کھائے، تمہیں کم سے کم کھانے کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے، ورنہ جس ندیدے پن سے تم کھانا ٹھونس رہی ہو۔۔ ایسے تو جانور بھی نہیں کرتے۔۔"انہوں نے ، عنقا کی بڑے اچھے طریقے سے عزت افزائی کی۔
"جی۔۔جی بالکل!! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔!! غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔!! آئم سوری۔۔!!" عنقا نے اپنی عزت افزائی کو محسوس کرتے ہوئے اور مزید عزت افزائی سے بچنے کے لیے، اپنی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور پھر انسانوں کی طرح، یعنی ذرا مہذب انداز میں نوالے لینے لگی۔

   1
0 Comments